نصیب

بچیوں کو ھم یہی کہتے ھیں
اللہ نصیب اچھے کرے اور یوں یاسیت سے کہتے ھیں جیسے نصیب(یعنی سسرال شوہر بچے) دنیا کے خاص معیار پر نا اتریں تو بچی برباد ھوگئ۔۔بچی کی اپنی ذات تو جیسے کہیں واقع ھی نہیں۔
پھر تعلیم اور ڈگری کا شور اٹھا تو یہی سمجھ آیا کہ سماجی استحصال سے بچاو کے لئے اگر “اچھے نصیب” کی سونے کی چڑیا نا ملے تو ڈگری کا زیور بچی کو کچھ وقعت دے سکتی ھے ورنہ تو بس۔۔۔۔
اللہ کی مکرم بندی، اپنی خداداد قدروقیمت سے ناآشنا رہتی ھے۔۔۔وہ اس حقیقت سے انجان رہ جاتی ھے کہ وہ
اپنے سے بندھے رشتوں
ڈگری کے زیور
نوکری کے لیبل
لوگوں کے اپروول
کے بغیر بھی ایک مکمل، مکرم اور قدروقیمت والی ھستی ھے۔
اسے اللہ نے اپنی بندگی کے لئے ویسے ھی چنا ھے جیسے اس کے نام نہاد competitors کو۔۔۔اسے اپنی قدروقیمت کو پانے کے لئے ان ھزاروں بیساکھیوں کے حصول کی دوڑ میں اندھا دھند نہیں بھاگنا۔
تعلیم، رشتہ، نوکری اور دولت کے علاوہ اسے اور بھی جھوٹے توقعات کی سولی پر چڑھایا جاتا ھے۔۔
اندر جتنا طوفان ھو۔۔اوپر سے صرف ‘ہاں جی، جو حکم” سنائ دے تو “اچھی/وقعت” والی ھوگی۔
ہر قسم کے حالات میں اف کیئے بغیر صبر کا پیکر بنے رہنا ھی عورت کا دوسرا نام ھے۔ اگر ایسا نہیں تو عورت نہیں کہلا سکتی۔۔
سب کو خوش رکھنا ھے ورنہ ناکام عورت کہلائ جاوگی۔
نوکری تعلیم اپنی جگہ۔۔گھر گرھستی بھی نک سک سی درست ھو تبھی مانیں گے۔۔اور خدا جانے اس ‘نک سک’ کا معیار کیا ھے؟ عام طور پر یہ مسلسل Do more کا معیار ھوتا ھے۔
یہ سب توقعات ھیں اور غیر حقیقی۔۔۔اصل قدروقیمت سے نابلد رکھ کر کنٹرول میں رکھنے کے ابلیسی ھتگنڈے ھیں۔۔جن کی کڑیاں زندہ مٹی میں گاڑنے جانے سے لے کر شوہر کے چتا میں کود کر زندہ جل مرنے سے ملتی ھیں۔

آج ھم اپنی خداداد قدروقیمت سے غافل خواتین 💔 ڈگری اور فایئننشل خودمختاری کو ھی زریعہ سمجھ بیٹھی ھیں۔
اور یہ حقیقت ھے کہ ڈگری کئ جگہوں پر آپ کو کچھ ویلیو ضرور دیتی ھے اور یہ انسٹنٹ ریلیف ایک abused اور suppressed, discriminated خاتون کے لئے بہت قیمتی ھوجاتا ھے۔
ساتھ ہی ایک اندھا دھند مقابلہ کی دوڑ کے لئے فیول بھی بن جاتا ھے۔
اپنی فطری چاہ اور ممتا کو دبا کر اس دوڑ میں رہنا اتنا تھکادینے والا ھوتا ھے کہ اعصاب numb ھی رہتے ھیں۔۔۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جاتی رہتی ھیں۔۔۔

مگر سوچنا ضروری ھے کہ یہ دوڑ آپ کی نہیں۔۔آپ پہلے ھی مکرم اور قیمتی ھیں باقی بنی نوع آدم کی طرح۔۔آپ کی اونچی قدروقیمت کسی ڈگری، زیور، انسانی رشتوں سے مشروط نہیں صرف ایک اللہ کی بندگی سے مشروط ھے۔
یہ جو اندھا دھند دوڑ ھے اس کا انت زندہ جل جانا یا زندہ دفن ھوجانا ھی ھے۔۔۔
اس سے پہلے اس خلش اور بے چینی کو توجہ دیجئے اس تڑپ کی طرف دیکھیئے جو اللہ نے آپ کی اصل ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے آپکے اندر پیدا کی ھے۔۔۔! جو سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اندر سے بے چین کئے رکھتی ھے۔
یہ اللہ کی رحمت ھے کہ اس طوفانی دوڑ، مفلوج کرتی ڈو مور کی توقعات، روح تک زخمی کرتے ناقدری اور بے وقعتی کے احساسات، اور اس غفلت کے عالم میں بھی ھم میں بیداری کی چنگاری کہیں نا کہیں سے آجاتی ھے۔ کیونکہ اللہ نے ھمیں نیک فطرت پر پیدا کیا اور ھماری خمیر کو صرف اپنی بندگی کی چاہ میں گوندھا ھے۔
وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون

مریم زیبا
@پی آر سی

Comments

comments