پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے جس کی عوام کی ایک بڑی تعداد صاف پانی، طبی سہولیات، تعلیم اور سر پر ایک محفوظ چھت سے محروم ہے۔
پاکستان کی زیادہ تر آبادی اس امت سے تعلق رکھتی ہے جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی پانی کے اسراف سے منع کیا ہے۔ وضو میں پانی کے بے جا بہانے کو نا پسند کیا گیا۔ یہ وہ امت ہے جس کے نبی نے انتہائ سادہ زندگی گزاری۔
اس نبی کے ایک ساتھی نے ایک دستر خوان ایک سے زیادہ سالن کو ناپسند کیا۔ اس امت کے اسلاف فراوانی میں یہ سوچ کر ڈرتے تھے کہ یہ دنیا کی نعمتیں کہیں جنت کی نعمتوں میں ہمارے حصے کو کم نہ کردے۔
اسی قوم کے مزاج میں آج انتہائ درجے کا تصنع اور اسراف پایا جاتا ہے۔ امرا کی بات تو ایک طرف! اس قوم کے عام تنخوادار طبقے کے گھروں کی شادیوں میں بھی نمود و نمائش انتہا پر ہوتی ہے۔ لباس فاخرہ اور خوان کے خوان دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جانے کتنے سالوں کی کمائیاں آج ایک دن میں خرچ ہورہی ہیں!
ایک وقت میں ایک انسان کتنا کھا سکتا ہے۔ زیادہ سے ایک پلیٹ چاول، ایک روٹی اور کچھ سالن؛ پھر چاول، دو دو سالن، سلاد، رائتے اور دو دو میٹھوں کی کیا ضرورت ہوتی ہے!
پھر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کتنی بھوک ہے، ایک وقت میں کتنا کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ بات ایک پلیٹ کی نہیں ہوتی بلکہ ہر ڈِش کی الگ الگ پوری پلیٹ بھرلی جاتی ہے اور سب میں سے تھوڑا تھوڑا کھاکے باقی سب چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک ایک شخص چار چار افراد کا کھانا لاتا ہے جو ظاہر ہے کھانا ممکن نہیں۔ پھر یہ سب کھانا ضایع ہوجاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ باہر کسی مزدور نے اپنے دستر خان پر روٹی رکھنے کے لئے کتنی مشقت اٹھائ ہوگی اور کون بھوکا ہی سو گیا ہوگا۔ کس بچے کو دودھ ملا ہوگا اور کس کو نہیں! اس دعوت کے میزبان نے روز کتنے ارمان کاٹ کر آج اس ایک دن کے ارمان پورے کئے ہونگے!
کھانے کے اختتام پر میزوں پر پڑے جھوٹے کھانے کےانبار دیکھ کر سوچتی ہوں کہ آخر
کب اس قوم کو شعور آئے گا!
کب یہ قوم گہرائ میں جا کر سوچے گی!
کب یہ قوم نفس اور ذات سے نکل کر آس پاس بھی دیکھے گی!
کب یہ قوم اس نبی کی تعلیمات پر عمل کرے گی جس سے محبت کا دم بھرتی ہے!
منیرہ احمد
بانی پی آر سی