ہمارے یہاں غلطی اور اختلاف رائے کی جیسے کوئ گنجائش ہی نہیں ہے۔
اگر آپ دوسروں سے مختلف رائے رکھتے ہیں تو آپ بہت برے انسان ہیں اور قابل مذمت ہیں۔ آپکو طعنے دینا اور شرمندہ کرنا اب ہر ایک کا فرض ہے۔
اگر آپ نے کوئ غلطی کی یا کوئ غلط فیصلہ کیا تو آپ نہایت احمق اور ناکام انسان ہیں۔ اور ہر ایک کو حق ہے کہ آپکو بار بار غلطی کا احساس دلائے اور شرمندہ کرے۔
دیکھا میں نے کہا تھا نا!
نہیں ما نا نا تم نے میرا مشورہ!
کرلی نا تم نے اپنی اب بھگتو!
بہت شوق تھا نا! دیکھ لیا نتیجہ!
تم انتہائ بیوقوف ہو!
میں نے بھلائ میں مشورہ دیا تھا مگر یہاں کس کو احساس ہے۔ بس اپنی کرنی ہے۔
یہی طعنے اور تشنیع ہیں جس نے انسانوں کے حوصلے پست رکھے ہیں۔ جیتنا اور کامیاب ہونا زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ناکامی باعث شرمندگی ہے اس لئے اکثر لوگ کچھ بھی مختلف یا نیا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ناکامی کے بعد تو جیسے دنیا ختم ہوجاتی ہے۔لوگ اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر بات خود کشی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
چونکہ اختلاف رائے کی گنجائش نہیں اس لئے رشتے نبھانا دوبھر ہوگیا ہے۔ پھر جب رشتے ٹوٹتے ہیں،طلاقیں ہوتی ہیں تو وہ ناکامی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ خاص کر عورتیں تو طلاق کے بعد تنقید اور طعنوں کے خوف سے جیسے زمین میں گڑ جاتی ہیں۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہمارا ہر فیصلہ سو فیصدصحیح ثابت ہو۔ کون ہے جس نے زندگی میں کبھی غلطی نا کی ہو! کون ہے جس نے کبھی ناکامی کا منہ نہ دیکھا ہو۔
اختلاف رائے انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہم اپنی عادات و اطوار ، پسند نا پسند اور خیالات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ اختلاف باعث رحمت ہے ورنہ تو ہم سب مشینوں کی طرح ہوتے کہ ایک سیٹ پروگرام کے تحت چلتے رہیں۔ اختلاف رائے وسعت پیدا کرتا ہے۔ اگر سب کی رائے اور پسند نا پسند ایک جیسی ہو تو زندگی میں کتنی یکسانیت ہو۔
غلطی کرنے کے بعد بھی انسان انسان ہی رہتا ہے۔ اسکی قدروقیمت میں کوئ کمی واقع نہیں ہوتی۔
مختلف سوچ رکھنے والے اتنے ہی باعث تکریم ہیں جتنے ہم خیال لوگ۔
طلاق کلنک کا ٹیکہ نہیں۔ ایک تجربہ اور آج کی زندگی کی ایک حقیقت ہے
منیرہ احمد
بانی پی آر سی