؟بچے کیوں والدین کو اپنا دشمن تصور کرنے لگے ہیں

صورت حال کچھ ایسی ھوگئ ھے کہ بچے والدین کو اپنا دشمن تصور کرنے لگے ھیں، جو انہیں دن رات ان کے ناپسندیدہ ترین کام کرنے پر مجبور کرتے ھیں۔۔۔
ہاتھ دھو لو
رومال استعمال کرلو اللہ کے بندے
اپنا کوٹ لٹکا دو
اپنا کام ختم کرلو
فورا واپس آو اور ٹائلٹ کا پانی چلاو
اپنے بستر پر جاو۔۔سونے کا ٹائم ھے
کرسی کو لات مت مارو
صوفے پر چھلانگیں مت لگاوٹ
بلی کی دم کھینچنا چھوڑ دو
اپنے ناک میں موتی مت ڈالو
بچے اپنی مرضی کرنا چاھتے ھیں اور ھم اپنی مرضی چلانا چاھتے ھیں۔۔۔اور یہ ایک نا ختم ھونے والا جھگڑا بن جاتا ھے۔۔۔یہاں تک کہ جب ھمیں کبھی بچے سے کوئی کام کرانا ھوتا ھے تو ھمارے اندر ایک انتہائی ناخوشگوار ابال سا محسوس ھوتا ھے اور کبھی اندر آرے سے چلنے شروع ھوجاتے ھیں۔۔۔!
کیا حل ھے اس مشکل ترین کام کا؟
آج میں 5 ایسے طریقے بتاتی ھوں جن سے کارعظیم کچھ آسان ھوجائے گا انشاءاللہ
1۔ جو نظر آرہا ھے اس کو بیان کریں۔۔منظر کشی کریں؛
گیلا تولیہ میرے بستر پر پڑا ھے
کھلونے ھر طرف بکھرے ھوئے ھیں
دودھ باہر پڑا ھے
2۔ معلومات دیں؛
گیلے تولیے کی وجہ سے میرا بستر گیلا ھورہا ھے
دودھ باہر پڑا رہے تو خراب ھوجاتا ھے
کھلونے پاوں کے نیچے آجائیں تو چوٹ لگ سکتی ھے
3۔ صرف ایک لفظ سے بتادیں؛ بچوں کو لیکچر پسند بھی نہیں ھوتے اور پراثر بھی نہیں ھوتے؛
تولیہ
دودھ
کھلونے۔۔!
4۔ اپنے جذبات کا اظہار کریں؛
مجھے گیلے بستر پر سونا اچھا نہیں لگتا
مجھے بکھرے کھلونے برے لگتے ھیں
باہر رکھنے کی وجہ سے دودھ خراب ھوجائے تو مجھے افسوس ھوگا
5۔ ایک نوٹ لکھ دیں؛
“پلیز مجھے استعمال کے بعد دوبارا لٹکا دیں۔۔۔آپ کا تولیہ”
” پلیز کھیلنے کے بعد مجھے میرے ڈبے میں واپس رکھ دیں۔۔۔فقط کھلونے”
“دودھ کا ڈبا ھوں ۔۔فرج میں رہتا ھوں ۔۔باہر خراب ھوجاتا ھوں۔۔” فرج پر نوٹ

مریم زیبا
how to talk so kids will listen and listen so kids will talk

Comments

comments