جب امریکہ میں یورپ کے لوگوں نے کالونیاں بنائیں اور مقامی آبادیوں اور ریسورز کے اوپر قبضہ کرنا شروع کیا تو ان کے اھم اقدامات میں مقامی بچوں کو سکولوں میں بھرتی کرانا تھا۔ جب مقامی لوگ مزاحمت کرتے تو تربیت اور اعلی تعلیم کے نام پر بچوں کو والدین سے جدا کردیا جاتا۔ آج بھی شمالی امریکہ میں کئ مقامی خاندان ھیں جو کورٹ کچہریوں میں اپنے بچوں کے لئے لڑ رہے ھیں۔

جارج اورول ایک مشہور مصنف ھے جو اپنے متنازعہ ناول “Animal farm” کی وجہ سے مشہور ھوا۔ اس میں کہانی کا اھم کردار نپولین جو خود ایک سور ھوتا ھے، تعلیم کے نام پر جانوروں کے بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرکے اپنی وفاداری کی تعلیم دیتا تھا، وہی بچے بعد میں اس کے محافظ بنتے ھیں اور اسکی آمریت کو نافذ کرنے کے لئے اپنے ھی والدین اور برادری سے لڑتے ھیں۔ سب سے دلچسپ منظر اسوقت ھوتا ھے جب والدین کی پریشانی اور اضطراب کو سن کرنے کے لئے نپولین اور اسکے چیلے سب جانوروں کو مختلف مشغلوں اور تماشوں میں مشغول کردیتے ھیں۔ یہ ناول سوشلسٹ موومنٹ کے تناظر میں لکھا گیا۔ مگر آج ھماری کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ ھم صرف بچوں کی بورڈنگ لاجنگ اور پک اینڈ ڈراپ سروس کے لئے مختص ھوگیے ھیں۔ اور تعلیم تعلم کے اھم ترین کام سے ھم خود دستبردار ھوگیے ھیں۔ کیا یہ والدین کے مقام و مرتبے کے خلاف نہیں؟
کل بچے ھمارے ساتھ ملازموں والا سلوک کریں تو عجب نہیں۔ کیا ھم نے خود اپنے لیے یہی رول نہیں چنا؟
اپنے فریضے سے خود ساختہ دستبرداری کے تباہ کن نتائج ھم آنکھوں سے دیکھ رہے ھیں، کل قیامت کے حساب کتاب کا کیا ھوگا؟

اللہ ھمیں ھدایت دے کہ اپنا مقام و مرتبہ پہچان لیں۔

مریم زیبا 

Comments

comments