قوت فیصلہ کیوں اھم ھے؟ اپنے اور بچوں کے قوت فیصلہ کی نمو کیسے کریں؟
اللہ رب العزت نے ھمیں محدود خود اختیاری دی ھے۔ یہ چیز ھمارا پیدائشی حق ھے اور اسی حق کو دنیا میں استعمال کرکے ھم نے اپنی آخرت کی تعمیر کرنی ھے۔ کل قیامت کو ھم سب نے اپنے اسی اختیار کی وجہ سے کئے گئے فیصلے کی بنیاد پر خالق کائنات کے سامنے جوابدہ ھونا ھے۔ مجبوریوں اور زمانے کی سختیوں کی کہانی اپنی جگہ مگر یہ سوال اٹل ھے کہ “تم نے میسر حالات میں کیا رویہ اپنے لئے چنا؟ عطا کردہ وسائل سے کیا کیا؟ مثبت چیز کو چنا کہ منفی کو اختیار کیا؟” اور حساب لینے والا کون ھے؟ جو ھر چیز کا مالک ھے اور علم اس پر ختم ھے۔
ھمارے لئے فیصلہ کرنا کیوں مشکل ھوتا ھے؟ ھم میں سے اکثر بڑے ھوکر بھی کسی اور کا انتظار کرتے ھیں کہ وہ ھمیں فیصلہ کر کے دے۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ ھمیں ابھی تک اپنے اس بنیادی حق کے بارے میں آگاہی نہیں اور ھم نے اس کو استعمال کرنے کی مشق نہیں کی۔ ھمیں سکھایا جاتا ھے کہ سوچے سمجھے بغیر ماننا اور مانتے جلے جانا کامیابی کی علامت ھے۔ مگر اللہ رب العزت نے ھمیں یہ حق بخشا ھے اور کل ھم نے اسی کے بنیاد پر حساب دینا ھے۔ اندھی تقلید اور ایمان میں یہی فرق ھے۔ ایمان ، سوچ سمجھ کر شعوری طور پر اختیار کیا جاتا ھے جبکہ اندھی تقلید سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کرنے اور بھیڑچال اختیار کرنے کا نام ھے۔
قوت فیصلہ کی نمو اور بڑھوتری ھمارے لئے نہایت اھم ھے۔ اس کے لئے شعوری کوشش کرنا بندگی کا تقاضہ ھے۔
اپنے کئے ھوئے فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانا، دوسروں کے فیصلوں کا احترام کرنا اور اپنے فیصلوں اور اٹھائے گئے اقدامت کے نتائج کو کھلے دل کیساتھ تسلیم کرنا۔۔یہ سب مضبوط قوت فیصلہ کے کچھ فوائد ھیں۔ کچھ کرنے کے کام؛
🌟دعا استخارہ کے معنی سمجھ کر بار بار پڑھئیے
🌟خود سوچ سمجھ کر چھوٹے چھوٹے انتخابات کیجئے۔ کسی قدم کو اٹھانے سے پہلے لمحہ کے لئے رک کر خود سے سوال کیجئے
🌟میں یہ کیوں کرنے جارہی ھوں؟
🌟اس کام کا کیا فائدہ ھے، اس میں کیا عارضی اور ابدی فوائد ھیں؟
🌟میری نیت کیا ھے؟
🌟کیا یہ میرے امنگوں اور خواہشات سے ھم آھنگ ھے؟
🌟کیا یہ کام میں خلوص کے ساتھ کررہی ھوں؟
🌟کیا لوگوں کی رضا مقصود ھے یا رب کایئنات کی رضا سامنے ھے؟
🌟میرے اس قدم سے میرے اوپر منحصر رشتوں پر کیا اثر ھونگے؟
🌟کیا میں اضطراری کیفیت کا شکار ھوں یا اپنے دماغ کے بالائ حصوں thinking/higher cortexکو استعمال کر رہی ھوں؟
معاشرے میں بھیڑ چال رائج ھے۔ بہت سارے کام سوچے سمجھے بغیر خودبخود ھوجاتے ھیں۔ یہ اللہ کی خاص رحمت ھے کہ شعور و آگاہی سے پہلے ھونے والے حالات واقعات کا حساب اسان ھے۔ استغفار اور توبہ آخری سانس تک مقبول ھے۔ اور اللہ نے تقدیر میں سب کچھ لکھ کر ایک سیفٹی نیٹ خود ھی فراھم کردیا ھے۔ مگر جب شعور اور ادراک حاصل ھوجائے تو deliberateness غوروخوض ضروری ھے۔ اور نتائج اللہ کے حکم سے جو بھی ھوں، ھمارے ارادے اور نیت کے بل پر حساب ھمیں دینا ھوگا۔
بچوں کی قوت فیصلہ کو نمو دینے کے لئے چند چیزوں کا خیال رکھیں۔ اسی کا نام تربیت ھے۔ اسی قوت فیصلہ کی بنیاد پر انہوں نے آگے چل کر برائ اور بھلائ کا انتخاب کرنا ھے اور ان کی دنیا اور آخرت کا انحصار اسی پر ھے۔ اللہ سے صدق دل کیساتھ دعا کرتے ھوئے ان اقدامات کو اپنایئے۔
🌟 ان کو مختلف چیزوں کے درمیان انتخاب کی مشق کرائیں۔ ان دو جوڑوں میں سے کونسا پہننا ھے؟ پہلے کیا پڑھیں اردو کہ حساب؟ ناشتے میں دودھ پہلے پینا ھے کہ پانی؟ ان دونوں جگہوں میں سے کونسی جگہ پر جائیں؟ ان تین کتابوں میں سے کونسا پہلے پڑھیں؟
🌟 بچے کوئ سوال پوچھیں تو فوری جواب نا دیں۔ جب بچے کچھ پوچھتے ھیں تو وہ پہلے ھی اس کے بارے میں کچھ سوچ رہے ھوتے ھیں۔ ان سے ان کی رائے پوچھیں۔۔۔انکا سوال دہرائیں، اچھا یعنی آپ یہ سوچ رہے ھیں کہ ایسا کیوں ھے۔ آپ کس کے حق میں ھے، یہ کہ یہ۔ میں ایسا سوچتی ھوں، آپکا کیا خیال ھے ایسا ٹھیک رہے گا؟ دوسرے بچے سے پوچھیں۔ اچھا علی کا یہ خیال ھے کیا آپ اس کی بات کو صحیح سمجھتے ھی؟ ہاں تو کیوں اور نہیں تو کیوں۔ ساتھ ساتھ بچے کو وقت دیں۔۔میں آپکے جواب کا انتظار کر رہی ہوں سوچ کر جواب دینا۔
🌟 بچے کی کوشش کی تعریف کریں۔ واقعی بوتل کو کھولنا اسان نہیں۔میں دیکھ رہی ھوں کہ آپ اپنی پوری کوشش کررہے ھو۔ اس کے ڈھکن کو ھلکا سا tap کرنا فائدہ مند ھوگا۔
🌟بچے سے ملاقات کے فورا بعد سوالات کی بوچھاڑ نا کریں۔ کہاں گئے تھے۔۔کیا کیا؟ کون ساتھ تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اپنی رائے دیں۔الحمداللہ میرا بیٹا واپس آگیا۔ اھلا و سہلا۔ لگتا ھے بہت انجوائے کیا، یا تھک گئے۔
🌟 اپنے علاوہ دوسرے ذرائع کے بارے میں بچوں کو بتائیں۔ اس سوال کا جواب تھوڑا الجھا ھوا لگ رہا ھے، چلو یہ کتاب دیکھتے ھیں، گوگل کرتے ھیں، بابا سے پوچھتے ھیں، دادا جان سے ڈسکس کرتے ھیں۔ اس موضوع پر لایئبریری سے کوئ کتاب حاصل کرتے ھیں۔ بڑا دلچسپ موضوع ھے۔
🌟 جب کبھی کوئ وقتی ناکامی یا غلطی سامنے آئے تو ان کو امید دلائیں۔ ایسا کہیں، اچھا تجربہ ھوا اس دفعہ آگے کام آئے گا۔ یہ یاد رکھیں، زندگی کی چھوٹی چھوٹی ناکامیوں اور رکاوٹوں سے اپکا مثبت انداز میں نمٹانے کا انداز بچوں کی اصل تربیت ھے۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ ھمارے استاد ھیں۔ یہ اللہ کی رحمت ھیں اور قدرت کی فطری مشق، ان کا کوئ مول نہیں۔ اللہ کی شکرگزاری والا رویہ کامیابی کی ضمانت ھے۔
اپنے پیدائشی حق، محدود خود اختیاری کو دوبارہ حاصل کیجئے۔ اپنے قوت فیصلہ کو مضبوط کیجئے اس قوت کا صحیح تصرف کیجئے۔ اپنے بچوں کیساتھ خود مشق کیجئے۔ اسی کے اوپر دنیا وآخرت کی کامیابی کا انحصار ھے۔
مریم زیبا