شہر ذات

میں شوہر کو احساس کیسے دلاؤں کہ اس نے مجھے تکلیف پہنچائ ہے۔

میں چاہتی ہوں میرا شوہر مجھ سے معافی مانگے مجھے آکر منائے۔

میں کتنے دنوں سے ناراض ہوں مگر میرے شوہر نے پوچھا تک نہیں کہ مسئلہ کیا ہے۔

میں اتنی خوش مزاج تھی۔اب کسی چیز کا دل نہیں کرتا مگر شوہر کو پرواہ ہی نہیں۔

مسئلہ میرا نہیں میرے شوہر کا ہے۔ اسکو کون ٹھیک کرے گا۔

اسطرح کی باتیں ہم اکثر سنتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں سارا مسئلہ دوسروں کی طرف سے ہے۔ دوسروں کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنی خوشیوں اور دکھوں سب کا ذمہ دار دوسروں کو بنا کر اپنے آپکو بری الذمہ کردیا ہے اور بے بسی کی چادر تان کر رونے دھونے میں ایک طرح کی لذت ڈھونڈھ لی ہے۔ جی ہاں بے چارگی میں بھی ایک لذت ہے۔ خود کچھ نہ کرو بس ہمدردیاں سمیٹتے رہو اور اگر وہ بھی نہ ملے تو مزید واویلا کرو۔

عورتوں کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ نے انہیں بھی کسی قابل بنایا ہے۔ انکے اختیار میں بھی بہت کچھ ہے۔ بے بسی، بے چار گی اور مظلومیت کی تصویر بنے رہنے کے علاوہ بھی کوئ راستہ ہے۔ انکی اپنی بھی کوئ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی فلاح پر کچھ کام کریں۔


بہنوں

اس بیچارگی
اس بے بسی
اس مظلومیت
اس گلے شکوے
اس نہ ختم ہونے والے انتظار سے کہ کوئ تو سمجھے گا، کبھی تو احساس ہوگا، کبھی تو منائے گا، کوئ تو آئے گا!
اس محتاجی سے نکلو
اپنے آپکو قابل بناؤ
مضبوط اور بااختیار بناؤ
اپنے آپکو پاورفل بناؤ

میں آزادی نسواں کی بات نہیں کررہی
نہ میں یہ کہ رہی ہوں کہ عورتیں جھنڈے لے گھر سے نکل پڑیں

میں جذباتی آزادی کی بات کرہی ہوں
میں اس اختیار کی بات کررہی ہوں جو بحیثیت انسان اللہ نے ہمیں دیا ہے
میں کسی بیرون از ذات تبدیلی کی بات نہیں کررہی۔ میں شہر ذات کی بات کررہی ہوں۔

منیرہ احمد

Comments

comments