بچوں میں احساس ذمہ داری اور خود مختاری کیسے پیدا کریں؟

1۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے فیصلے خود کرنے دیں۔ اپنے فیصلوں میں ان کی رائے کو اھمیت دیں۔ بات سننے اور من وعن ماننے میں فرق پہچانیں۔
اللہ کی عطا کردہ محدود خودمختاری اور اس کے نتیجے میں کل قیامت کے دن کی جوابدہی کا احساس، اس کو سمجھنے کے لئے انہیں اپنے چھوٹے فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانے کی مشق ضروری ھے۔
2۔ بچوں کی کوشش، مشقت کو دیکھیں۔۔احساس کریں اور حوصلہ افزائ کریں۔ process praise انتہائ اھم ھے۔
3۔ پوچھ گچھ اور تفتیش کم سے کم کریں۔ مثبت مکالمہ پر زور دیں۔ ان کو کھل کر بولنے دیں۔ معنی خیز سوالات کریں۔ گفتگو کو لیکچر بنانے کے بجائے انہیں کی بات سے اسباق اخذ کریں اور ان پر زور دیں۔ پچاس فیصد حصہ سننے کے لئے مخصوص کریں۔
4۔ سوالات کے جوابات فوری نا دیں۔ الفاظ یا ترتیب بدل کر وہی سوال ان سے کریں۔ اور اپنی دلچسپی کا اظہار کریں۔ ان کی رائے پوچھیں۔ بچے جب سوال کرتے ھیں تو اکثر خود کافی حد تک اس موضوع پر سوچ چکے ھوتے ھیں۔ اور جواب سے زیادہ توثیق مطلوب ھوتی ھے۔ آپ کی بات ان کے سوچ کو مثبت یا منفی رخ دے سکتی ھے۔ الفاظ کے چناو میں احتیاط برتیں۔ قولو لناس حسنا کے سنہرے اصول کو یاد رکھیں۔
5۔ بچوں کو معلومات اور آگاہی کے حصول کے لئے دوسرے ریسورسز کا,استعمال سکھائیں۔ قرآن حدیث، اجماع اور اجتہاد، کتابیں، لایئبریری، انٹرنیٹ، بڑے بزرگ، علماء اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ وغیرہ۔ اپنی گفتگو میں ماہرین کی اھمیت کو شامل رکھیں۔ عالم اور سکالر بننے کی تحریک یہیں سے ملتی ھے۔ علم و آگاہی کی اھمیت دل میں ادھر سے ھی جگہ پا سکتی ھے۔
5۔ کسی وقتی ناکامی پر ان کی محنت اور مشقت کی تعریف کریں۔ انجام سے زیادہ عمل کو خود اھمیت دیں۔ انجام کار اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا ھے؛ قلم اٹھ گئے اور سیاہی خشک ھوچکی ھے, اللہ نے ھمیں ھمارے طرزعمل اور کوشش کا اجر دینا ھے۔ تقدیر پر ایمان، ارکان ایمان کا اھم رکن ھے۔ اس پر کام کرنا ناگریز ھے؛ یہ عقیدہ، قنوطیت اور تکبر/غرور کے درمیان توازن کے حصول کے لئے اشد ضروری ھے۔
کسی کامیابی یا ناکامی کے بجائے اس کے لئے کی جانے والی کوشش کو سراہیں۔ “میری کوشش کا نتیجہ توقع کے مطابق نہیں تھا۔۔مگر الحمداللہ تجربہ بہت اچھا تھا۔۔بہت ساری چیزیں سیکھیں۔۔آگے کام آئے گا” اسطرح کے جملوں کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائیں۔
6۔ خود پرامید رہیں۔ اور بچوں کو بھی اچھے گمان کی تلقین کریں۔ اللہ بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتے ھیں یہ اللہ کا فرمان ھے۔ امید افزا بات کریں۔ مثبت الفاظ چنیں۔ منفی الفاظ کا استعمال کم سے کم کریں۔ “ھمم آپ گیم کی پریکٹس کر رہے ھو۔۔اچھا تجربہ ھوگا ان شاءاللہ العزیز، آپ کی کیا توقعات ھیں؟”
7۔ ان کے دن رات کی معمولات کے لئے شیڈول بنانے کے لئے ان سے مشورہ کریں۔ ان کے ساتھ مل کر بنائیں۔ رات سونے سے پہلے ان سے گزرے دن کی کاروائ پوچھیں۔ اپنا شیئر کریں۔” آج میرا ٹارگٹ یہ تھا، الحمد للہ 70 فیصد حاصل ھوگیا، اس۔۔ وجہ سے پورا نہیں ھوا۔ اب میں اسطرح سے کیا کروں گی۔۔۔کل میرا فوکس یہ ھوگا ان شاءاللہ العزیز۔” ان سے صبح کے وقت ڈسکس کریں کہ آج کا ایجنڈہ کیا ھے؟ اسطرح ھم بچوں کو goal setting کی تربیت دے رہے ھوتے ھیں۔ یہ ان کی خود مختاری کے لئے نہایت اھم ھے۔ یعنی ھم گول سیٹ کرتے ھیں اور پھر ریفلیکٹ کرتے ھیں اور اپنا جائزہ لیتے ھیں۔
8۔ غلطی پر شرمسار نا کریں۔ غلطی سیکھنے کے لئے ضروری ھے۔ حضرت آدم کے ھم سب اولاد ھیں۔ ان سے غلطی ھوئ۔ ھم سب غلطیاں کرتے ھیں۔ جب ھم غلطی کو اچھا فائدہ مند تجربہ سمجھتے ھیں اور سمجھاتے ھیں تو بچے زندگی کے فیصلوں میں ڈر اور جھجھک کے بجائے اعتماد کا مظاہرہ کرتے ھیں اور خطرات کا بے خوفی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نمو پاتی ھے۔ اسطرح ھم ان کو risk takers بننے کی مشق کراتے ھیں۔
اللہ ھم سب کو تربیت اولاد کی ذمہ داری سے احس انداز میں نمٹنے کی توفیق دے۔ آمین
دعاوں کی طلب گار
مریم زیبا
ھوم اسکولنگ کنسلٹنٹ
پیرینٹینگ اینڈ ریلیشنشپ کوچینگ
پاکستان

Comments

comments