اگر کیریر اھم نہیں تو ھم اپنی بچیوں کو کیا وژن دیں؟

اھم ترین سوال۔۔۔اگر کیریر اھم نہیں تو ھم اپنی بچیوں کو کیا وژن دیں؟

تعلیم و تربیت کے اصل مقصد کو سامنے رکھنا ضروری ھے۔ جب بچوں کو لکھنے پڑھنے، سوچ بچار کرنے اور ایک تادیبی فکر کی تربیت مثبت انداز میں دی جائے تو زندگی کے کسی مرحلے پر کچھ بھی سیکھنے سے نہیں گھبراتے۔ ھوم اسکولنگ میں ھم بچوں کو ان کے اپنی رفتار اور طبعیت کے مطابق پڑھائ کرنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتے ھیں۔ ایسے مثبت ماحول میں ہر بچے کو اپنی مخصوص دلچسپیوں کو کھنگالنے کا موقعہ ملتا ھے، بھیڑچال کے بجائے وہ اپنی خصوصی صلاحیتوں پر والدین کی مہربان رہنمائ میں پروان چڑھاتے ھیں۔ یہاں والدین محسوس اور نامحسوس طریقے سے ان کی پسند ناپسند پر اثر انداز ھوتے ھیں۔
دنیاوی تعلیم اور فنون کا ایک محدود حصہ ھوتا ھے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ھمارا یقین ھے کہ رزق اللہ رب العزت کی طرف سے مقرر ھے اور موت کی طرح انسان کا پیچھا کر رہی ھے۔ چنانچہ حصول رزق کے لئے مقدور بھر کوشش ھی مطلوب ھے۔ پوری زندگی کو اس میں کھپا دینا ایک مسلمان کے لئے زیب نہیں دیتا۔ اور یہ پروڈکٹیئو بھی نہیں۔
مختلف ریسرچز کے مطابق آنے والے وقتوں میں فنی علوم کا دائرہ عمل محدود سے محدود ھوتا جائے گا۔ ابھی بھی مختلف فنون کی جگہ مشینوں نے لے لی ھے۔ جو اصل مہارتیں کام آنے والی ھیں وہ لائف سکلز ھیں۔ آپ اپنے آپ کو ھر قسم کے حالات میں کسطرح ایک توازن کے راستے پر گامزن رکھ سکتے ھیں۔ زندگی میں خرچ ھوجانے کے بجائے، زندگی کی نعمتوں کو کسطرح اپنے بلند تر مقصد کے لئے استعمال کر سکتے ھیں؟
ھم پڑھائ اور مختلف علوم کو اپنے بلند تر مقصد میں بھرپور استعمال کرنے کے لئے بروئے کار لاتے ھیں۔
اپنی بچیوں کے اندر ایسے مثبت رویہ اور تعلیم اور تعلم کی محبت ڈالیں کہ دنیا کے کسی کونے میں اور کسی بھی نظام تعلیم میں ان کے لئے کوئ مشکل نا ھو۔ جس فیلڈ میں وہ دلچسپی محسوس کریں اسے بھرپور طریقے سے ایکسپلور کرنے دیں۔۔بچوں کا وقت ھمارے پاس محدود ھوتا ھے اس دوران ان کے اندر ایک درست قوت فیصلہ کی بڑھوتری کے لئے کام کریں۔ تعلیمی نصاب صرف ایک اوزار ھے، اس کو استعمال کرکے انہیں اپنے اصل مقصد کی طرف پہنچنے کی رہنمائ کرنا اھم ھے۔
روزانہ، ھفتہ وار، ماہوار اور سالانہ مقاصد کے حصول کی تربیت، اصل میں بلند تر مقصد کے حصول کے لئے ڈرل ھے۔
ھائ سکول (نویں سے بارھویں جماعت) کے دوران بچے اپنی دلچسپیوں کا تعین کر لیتے ھیں۔ ان کو درست نقطہ نظر دینا آپ کا کام ھے۔
جو اھم ترین ذمہ داری ایک بچی کا ھے اسے اس کے لئے تیار کرنا اھم ھے۔ مگر جسطرح کا غیر صحتمند طریقہ کار رائج ھے اس کے بارے میں محتاط ھونا چاھیئے۔ اس روئے کے مطابق بچیوں کے لئے زندگی کا مقصد صرف شادی تصور کرایا جاتا ھے اور اس کی تقدیر کا مطلب اس کے شوہر سے لیا جاتا ھے۔ جو انتہائ محدود اور غلط تصور ھے۔ تقدیر کا مالک صرف اللہ رب العزت ھے اور شادی اور خانگی زندگی، زندگی کا مرحلہ ھے اور اسی طرح کیریر بھی ایک حصہ ھے۔ بلند تر مقصد کے حصول میں یہ سب زرائع ھیں۔ انہی معمولات میں ھمارے درست روئے اور انفرادی چھوٹے چھوٹے فیصلوں کے اوپر ھماری ابدی زندگی کا انحصار ھے۔
قصہ مختصر۔۔۔نشان منزل یا سنگ راہ کو منزل نہیں سمجھنا چاھیئے۔ بلند تر اور اصل مقصد سامنے ھو تو راستہ آسان ھوجاتا ھے۔ اللہ ھم سب کے لئے آسانی کرے۔
مریم زیبا 

Comments

comments